الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے : محسن نقوی
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگر ہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ تیرا نام لکھا ہے
آیات کی جُھرمٹ میں تیرے نام کی مَسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
اب کو ن حدِ حسن طلب سوچ سکے گا
کونین کی وسعت تو تہہ ِ دستِ دعا ہے
ہے تیری کَسک میں بھی دَمک حشر کے دن کی
وہ یوں کہ میرا قریہ ِ جاں گُونج اُٹھا ہے
خورشید تیری راہ میں بھٹکتا ہوا جگنُو
مہتاب تیرا ریزہ ِ نقشِ کف ِ پا ہے
ولیل تیرے سایہ ِ گیسُو کا تراشا
ولعَصر تیری نیم نگاہی کی ادا ہے
لمحوں میں سمٹ کر بھی تیرا درد ہے تازہ
صدیوں میں بکھر کر بھی تیرا عشق نیا ہے
یا تیرے خدوخال سے خیرہ مہ و انجم
یا دھوپ نے سایہ تیرا خود اُوڑھ لیا ہے
یا رات نے پہنی ہے ملاحت تیری تن پر
یا دن تیرے اندازِ صباحت پہ گیا ہے
رگ رگ نے سمیٹی ہے تیرے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشاں مجھے دنیا نے کیا ہے
خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہر ِ اماں کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے وِرد کیا ہے
اِک بار تیرا نقشِ قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلک شُکر کے سجدے میں جھکا ہے
دل میں ہو تیری یاد تو طوفاں بھی کنارہ
حاصل ہو تیرا لطف تو صرصر بھی صبا ہے
غیروں پہ بھی الطاف تیرے سب سے الگ تھے
اپنوں پہ بھی نوازش کا انداز جدا ہے
ہر سمت تیرے لطف و عنایت کی بارش
ہر سُو تیرا دامانِ کرم پھیل گیا ہے
ہے موجِ صبا یا تیری سانسوں کی بِھکارن
ہے موسم ِ گل یا تیری خیراتِ قُبا ہے
سُورج کو اُبھرنے نہیں دیتا تیرا حبشیؓ
بے زر کو ابوزرؓ تیری بخشش نے کیا ہے
ثقلین کی قسمت تیری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر تیرے ہاتھوں پہ لکھا ہے
اُترے کا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآں تیری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے
اب اور بیاں کیا ہو کسی سے تیری مِدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تُو محبوبِ خدا ہے
اے گنبدِ خضرا کے مکیںﷺ میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون مِرا تیرے سوا ہے
بخشش تیری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محؔسن تیرے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے
محسن نقوی
Comments
Post a Comment